Maqalat-e-Hikmat Urdu Quotes 61 To 100
Introduction
“61 to 100 Maqalat-e-Hikmat Urdu Quotes” is a timeless collection of Urdu quotes that reflect the essence of wisdom, truth, and deep reflection. These Maqalat-e-Hikmat carry powerful messages that inspire the heart, enlighten the mind, and guide the soul toward positivity and self-awareness. Each quote in this series holds a valuable life lesson that teaches patience, humility, success, morality, and the importance of living with purpose.
In the modern age of distractions, Aqwal-e-Zareen and motivational Urdu quotes help people reconnect with meaningful thoughts and spiritual depth. The sayings compiled in Maqalat-e-Hikmat (61 to 100) come from great thinkers, poets, and scholars whose words continue to shape moral and intellectual growth. These wise sayings remind readers that true success lies not only in wealth or fame but in good character, kindness, and self-control.
Whether you seek Urdu quotes about life, Islamic quotes on wisdom, or motivational thoughts that bring inner peace, this collection offers something for everyone. The Maqalat-e-Hikmat Urdu quotes serve as guiding lights that encourage reflection and inspire change. By reading and understanding these beautiful sayings, one can find answers to life’s challenges, strength in hardship, and hope in despair.
Explore these 61 to 100 Maqalat-e-Hikmat Urdu quotes and discover timeless pearls of wisdom that nurture both heart and mind. Let these words inspire positivity, build patience, and awaken the desire to live a more meaningful and spiritually enriched life.

جب کوئی قوم کسی اخلاق کو اپنا لیتی ہے اللہ اسے دانائی حکمت بخش دیتا ہے پھر اسے ترقی کرنے کے لیے سرمائے کی ضرورت ہوتی ہے پہلے ہی روز نہیں ، اور جو سرمایہ جس قوم کے لیے ضروری ہوتا ہے، اللہ اسے دیتا ہے ۔ اللہ کے لطفت وکرم سے ہمارے کہسار اپنی اپنی وادیوں میں موتیوں کے ڈھیر لیے بیٹھے ہیں اور کسی بھی چیز کی کوئی کمی نہیں، ہر شے کے خزانے بھرے پڑے ہیں ۔ ما شاء اللہ۔
الحمد للحي القيوم

کوئی مرد کسی عورت کو تنہائی میں کوئی علم نہیں پڑھا سکتا ۔
عورت اگرچه رابعہ بصری ہو اور مرد خواجہ حسن بصری درس قرآن عظیم ہو
اور درس گاہ کعبہ، پھر بھی خطرے سے خالی نہیں۔
الحمد للحي القيوم

بندہ جب تک کسی تعمیری اور ضروری کام میں مصروف نہ ہو کسی علیحدہ مجرے میں بالکل نہ رہے ور نہ اس کا دل غیر ضروری خیالات کا مرکز بن جائے گا ۔ سارا دن بیٹھے بیٹھے فضول خیالات میں مشغول رہے گا ۔ اللہ کرے تجھے کوئی کام عطا ہو اور تو پھر اس کام کو سر انجام دینے کے لیے حجرہ میں جائے اور تیرا سارا دن اور ساری رات اسی کام ہی کو سرانجام دینے کی تدابیر میں صرف ہو ۔
یا حی یا قیوم : تو مجھ کو اپنے دین اسلام کی دعوۃ و تبلیغ کے کام میں ہمہ تن مصروف و مشغول فرما۔
یا حی یا قیوم امين
الحمد للحي القيوم

بادشاہوں کو حسرت ہے کہ وہ دنیامیں فقیر ہوتے ۔ سب کے سب کہتے ہیں
اگر ہم دنیا میں کچھ بھی نہ ہوتے تو کیا خوب ہوتا اور وہ کام کرتے جو یہاں کام آتے۔
کوئی مال جمع نہ کرتے اور نہ ہی چھوڑ کر یہاں آتے۔ اللہ کا مال اللہ کی راہ میں لگا کر آتے
تو کیا خوب ہوتا ! اللہ کا ذکر کرتے ۔ ذکر کی مجلسوں میں جانتے ۔
اللہ کے لیے جیتے اور اللہ ہی کے لیے مرتے ۔ زندوں کو زندگی کا نمونہ دے
کر آتے اور زندگی کی حسرت مٹا کر آتے۔
الحمد للحي القيوم

ہم حکومت کے انجام سے بے خبر ہیں،
اور نہ کوئی بھی کسی بھی قیمت پہ کبھی حاکم بننا پسند نہ کرے۔
ہم حکومت کے انجام سے بے خبر ہیں اور نہ کوئی بھی
کسی بھی قیمت پہ کبھی حاکم بننا پسند نہ کرے۔
الحمد للحي القيوم

ہر بندے کے لیے ہر معاملے میں اللہ کافی ہے
جس کے لیے اللہ کافی نہیں، کوئی کافی نہیں۔
الحمد للحي القيوم

اللہ معطی، اور اللہ کے حبیب اقدس صلی اللہ علیہ وسلم قاسم ہیں ۔ قاسم الخيرات الحسنة.
إنَّمَا أَنَا قَاسِم وَاللهُ يُعطى میں تو تقسیم کرتا ہوں اور عطا کرنے والا اللہ ہی ہے
معاوية – بخاری و مسلم
اللہ عطا کرتے ہیں حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم تقسیم کرتے ہیں۔
الحمد للحي القيوم

قاسم کا معطلی کے پاس حاضر رہنا ہر وقت ضروری ہے ۔
جب بھی معطی کسی کو کوئی شے عطا کرے ، قاسم کا تقسیم کے لیے حاضر ہونا ضروری ہے ۔
اللہ ہر وقت اپنی مخلوق کو لاتعداد عنایت کرتے رہتے ہیں
اور حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم انہیں تقسیم فرما کرسکتے ہیں
الحمد للحي القيوم

مقام سالک کے اور سالک حال کے تابع ہوتا ہے۔ ہر حال اللہ کی طرف سے وارد ہونا ہے۔
ہر سالک حال کے ماتحت ہوتا ہے۔ حال جب طاری ہو جاتا ہے ساری خدائی زور لگا لے
واپس نہیں ہوتا۔ لیکن جب چلا جاتا ہے ، پھر اسے کوئی واپس نہیں لا سکتا۔
الحمد للحي القيوم

حال طریقت کی وہ کیفیت ہے جو اللہ کی طرف سے سالک کے قلب پر وارد ہوتی ہے
اور وہ حال کے ماتحت نقل و حرکت پہ مجبور ہوتا ہے
کبھی رک نہیں سکتا۔ اللہ جب حال کو بدل دیتے ہیں
، پھر اسے کوئی کبھی واپس نہیں لا سکتا۔
الحمد للحي القيوم

حال ماضی کا شاہد ہے یعنی جو چیز ماضی میں تھی حال میں بھی ہے۔
اگر حال میں نہیں تو ماضی میں بھی نہ تھی۔
الحمد للحي القيوم

جتنے کمالات تمام انبیاء علیہم السلام میں تھے
، وہ تمام اور ان کے علاوہ بے شمار کمالات ہمارے حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی
ذات بابرکات میں ہیں اور حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے کمالات کی
پوری جھلک آپ کی ساری امت میں موجود ہے۔
الحمد للحي القيوم

اللہ نے جتنے کمالات پیدا کیے ہمیشہ قائم رہتے ہیں۔
ایک صاحب کمال جب انتقال کر جاتا ہے، اس کا کمال کسی دوسرے کو منتقل کر دیا جاتا ہے۔
گویا ایک کمال ایک ولایت ہے جس میں صاحب ولایت آتے اور اپنی تقرری کا دور ختم کر کے لوٹ جاتے ہیں
اور پھر اسی وقت کوئی دوسرا ان کی جگہ کو پر کرتا ہے۔
الحمد للحي القيوم

جو شے دنیا میں کل موجود تھی آج بھی ہے ، اسی طرح کل بھی رہے گی۔
الحمد للحي القيوم

دین علم و فلسفہ نہیں عمل کا نام ہے۔ ہر فلاسفر دین دار نہیں ہوتا
لیکن ہر دیندار فلاسفر بھی ہوتا ہے۔ لوگ دین کا فلسفہ غیر اسلامی ممالک میں جا کر
غیر مسلم فلاسفروں سے سیکھتے اور فلسفہ کی سند حاصل کرتے ہیں ۔
اگر دین کا کمال فلسفہ ہوتا تو اسلام کے غیر مسلم فلاسفر ضرور دیندار ہوتے۔
دین کا حاصل فلسفہ نہیں عمل ہے ۔
الحمد للحي القيوم

دین میں جہاں عالم کے فضائل بیان کیے گئے ہیں
اس سے مراد وہ عالم ہے جو اپنے علم پر عمل کرتا ہے۔
الحمد للحي القيوم

نفس کی اصلاح کے لیے محض مطالعہ کافی نہیں مطالعہ کے ساتھ ساتھ کسی شخصیت کی رہنمائی
لازم و ملزوم ہے۔ کوئی آدمی اپنی اصلاح آپ نہیں کر سکتا۔
اللہ رب العالمین نے فرمایا:
الرَّحْمَنُ فَاسْأَلُ بِهِ خَبِيرًا- نہایت مہربان نہیں پوچھ لے تب رکھنے والے سے۔
(الفرقان : ۵۹)
جسے خود خبر نہیں کسی کو کیا خبر دے گا؟
الحمد للحي القيوم

غیر معمولی عمل ہی سے غیر معمولی حال وارد ہوتا ہے۔
الحمد للحي القيوم

یہ کبھی ہو سکتا ہے کہ اللہ اپنے دین اور اپنے جیب اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی
سنت مطہرہ کو اپنی پوری آب و تاب سے بلند نہ فرمائے؟
الحمد للحي القيوم

غور فرماؤ
دین اللہ کا، دنیا اللہ کی، ہم اللہ کے، ہر کوئی اللہ کا،
اور ہر شے اللہ کی۔ پھر اللہ کی غیرت کو دین کی بے قدری کیسے گوارا ہو سکتی ہے؟
ایمان اسے کبھی قبول نہیں کر سکتا کہ اللہ کا دین اللہ کی دنیا میں بلند نہ ہو ،
جب کہ دین کا مالک بھی اللہ ہے اور دنیا کا بھی اللہ۔
الحمد للحي القيوم

یقینا اللہ ہیں عمل کی توفیق بخشے گا، اور ضرور بخشے گا۔
جس بے قدری سے ہم دوچار ہیں، وہ ہمارے ہی اعمال کی شامت کا نتیجہ ہے۔
ورنہ کبھی مسلمان بھی کسی میدان میں ہارا ہے؟
مسلمان جس میدان میں بھی اترا ، بازی لے گیا۔
الحمد للحي القيوم

اللہ کی کوئی مخلوق۔ کا فر ہو یا مشرک، فاسق ہو یا فاجر، اس حقیقت کا انکار نہیں کرتی
کہ اسلام ہی ایک ایسی راہ ہے جس پر کہ چل کر سب امن و سلامتی کی زندگی بسر کر سکتے ہیں۔
اگرچہ تعصب کی بناء پر اپنی ضد پر ڈٹے رہیں
دل سے ضرور تسلیم کرتے ہیں کہ قرآن اللہ کی کتاب اور اسلام اللہ کا پسندیدہ دین ہے۔
سادہ، پکا، مقبول عام اور مقبول الفطرت۔
الحمد للحي القيوم

حوادث دہر اللہ کے دین اسلام کی تبلیغ پر اثر انداز نہیں ہو سکتے
بلکہ تبلیغ حوادث دہر پر اثر انداز ہوا کرتی ہے۔ ہمیشہ ہوا کرتی ہے۔
الحمد للحي القيوم

اللہ کے لطف وکرم سے ہماری یہ تبلیغ اس دن تک جس دن کہ
حضرت اسرافیل علیہ السلام صور پھونکیں گے
پوری آب و تاب سے جاری رہے گی۔
مَا شَاءَ اللهُ لَا قُوَّةَ إِلَّابالله
الحمد للحي القيوم

اس طرح اتحاد ہو سکتا ہے۔ جب اللہ کی راہ میں نکلو،
دین کے مسائل و فضائل بیان کرو۔ اپنا مسلک بھی بیان کرو ۔
اپنے مسلک کی تعریفوں کے پل باندھ دو۔ اس پہ کسی کو بھی اور کوئی بھی اعتراض نہیں۔
لیکن کسی دوسرے مسلک پہ تنقید نہ کرو جب آپ کا وہ مسلک ہی نہیں،
اس پہ نکتہ چینی کا کیا فائدہ؟
الحمد للحي القيوم

اللہ رب العالمین نے فرمایا
وَاصْبِرُوا إِنَّ اللهَ مَعَ الصَّابِرِينَ
اور صبر کرو بے شک اللہ صبر کرنے والوں کے
الانفال – ۴۶)
ساتھ ہے۔
فَاصْبِرُ صَبْرًا جَمِيلًا
پس عمدگی کے ساتھ صبر کرو ۔
(المعارج – (۵)
الحمد للحي القيوم

صبر اللہ کی بہترین نعمت ہے جو اس سے محروم رہا،
بے شک بھلائیوں سے محروم رہا۔
الحمد للحي القيوم

کوئی اگر کسی تکلیف پر واویلہ کرے گا تو کیا پائے گا؟
واویلا کبھی نقصان کو پورا نہیں کر سکتا۔
الحمد للحي القيوم

واویلا صبر کے اجر کو تو کھا جاتا ہے مگر نقصان کو پورا نہیں کرتا۔
الحمد للحي القيوم

صبر کے سوا کوئی اور چیز کسی نقصان کو کسی بھی طرح پورا نہیں کر سکتی
اور فقط صبر ہی ہر نقصان کا بہترین اجر اور نعم البدل ہے۔
الحمد للحي القيوم

صبر اللہ کی رحمت کو کھینچ لاتا ہے۔
نہ مانو تو کر کے دیکھو۔
الحمد للحي القيوم

صبر ایک وہ ہتھیار ہے جس کا وار کبھی خالی نہیں جاتا
اور وہ حصار ہے جسے کبھی کوئی پھاند نہیں سکتا۔
الحمد للحي القيوم

صبر کے تیر جب چل جاتے ہیں بس چل جاتے ہیں۔ پھر کبھی واپس نہیں مڑتے۔
سائے ڈھل جاتے ہیں، پہاڑہ ہل جاتے ہیں، رستم جیسوں کے پاؤں بھی اکھاڑ دیتے ہیں
اور پچھاڑ دیتے ہیں۔
الحمد للحي القيوم

صبر ایک وہ لذت ہے
جس کا مزا سدا باقی رہتا ہے۔
الحمد للحي القيوم

کام کر۔
ہمہ اوقات اپنے نفس کو مصروف و مشغول رکھ۔ اللہ کی مخلوق کو نفع پہنچانے کے لیے کر۔
اپنے لیے کچھ مت کر اپنے تئیں اپنے رب کے حوالے کر جس حال میں بھی رکھے، راضی رہ، نہ شکوہ کر نہ اعتراض۔
تیری کوئی بھی شے تیرے رب سے پوشیدہ نہیں، اور تیرا رب تجھ پر تیری ماں سے سو گنا زیادہ مہربان ہے۔
پھر کیا تیرا رب تیرے لیے کافی نہیں؟ اور یہ سلوک کی انتہا ہے۔
الحمد للحي القيوم

بہترین تسخیر یہ ہے
کہ تو خلق کو نفع پہنچا لیکن خلق سے نفع کی امید مت رکھ۔
ہر کسی کی خدمت کر، لیکن کسی سے بھی خدمت کی اُمید مت رکھ۔
الحمد للحي القيوم

ہم نے رومی جیسوں کو شراب تک پلا دی
اور وہ ہمیں ایک تہبند نہ بندھوا سکے۔
الحمد للحي القيوم

:اے دل
تو بات بات پہ خوش اور بات بات پہ مغموم رہتا ہے۔ تیری یہ حالت میرے اللہ کے کاموں میں محل ہے ، بڑی طرح محل – بجب تک تو خوشی وغمی سے بے نیاز نہیں ہوتا ، میرا کام نہیں چلتا تیری حالت کسی ایک سی نہیں رہتی ۔ اُن کی آن میں خوش اور آن کی آن میں مغموم – نوشی کس بات کی اور غم کسی چیز کا ؛ یعنی یہ پتہ نہیں چلتا کہ تو کیوں خوش اور کیوں مغموم ہوتا رہتا ہے ۔
تیری یہ دونوں حالتیں مذموم ، ملک ، فانی اور غیر مستحسن ہیں ، ان دونوں سے بے نیاز ہو۔ دور ہو، باز آ، اور ایک ایسے حال میں رہ ، جہاں خوشی و غمی کو کوئی گزر نہ ہو اور کبھی دخل نہ ہو ۔
تجھے کبھی بھی کوئی ہنسا نہ سکے اور نہ ہی کبھی رلاسکے۔
تیرا حال اٹل ہو، اہل ہو، جو نہ کبھی ہل سکے، نہ کسی سے ہلایا جاسکے ۔ یا حی یا قیوم
الحمد للحي القيوم

کوئی ہستی کسی نیستی کا کبھی مقابلہ نہیں کر سکتی نیستی اگر چہ چھوٹی ہو
بڑی سے بڑی ہستی پہ غالب ہوتی ہے۔ ہستی بھلا نیستی کا کیا مقابلہ کرے اور کیوں کر کرے ؟
جب کہ وہ بننے اور یہ مٹنے، وہ جینے اور یہ مرنے کی دل دادہ ہے۔
ہستی کی مراد بننا اور نیستی کی مٹنا ہے۔
الحمد للحي القيوم

ہستی جب نیتی کا لبادہ اوڑھ لیتی ہے کشمکش دہر سے نجات پا جاتی ہے ۔
قال و مقال سے گزر کر حال کی وادی میں قدم رکھتی ہے اور اللہ کے سوا
کسی دوسرے کو کسی حال پر کوئی خبر نہیں ہوتی کہ کون کس حال میں ہے
یا حال پہ اعتراض خطا ہے کسی کے بھی حال پہ کبھی اعتراض مت کر
اللہ ہی اپنے بندوں کے حال کا علیم و خبیر ہے
الحمد للحي القيوم